ڈوبتی آنکھیں

ڈوبتی آنکھیں Cover Image

اس دھوپ کی گرمی میں جھلسی ہوئی آنکھوں کو

اک سایۂ راحت کی پر زور تمنّا تھی

جلتی ہوئی آنکھوں میں کتنے ہی زمانے تھے

کتنی ہی بہاریں گم، کتنے ہی خزاں مضمر

کنتے ہی حسیں منظر، کتنے ہی جواں سپنے

سورج کی شعاوں سے جلتے ہوئے کتنے دن

جاگی ہوئی راتوں کی وحشت سے بھری یادیں

منحوس سی آہٹ تھی کچھ آہنی بوٹوں کی

معصوم سی چینخیں تھیں، اشکوں کے سمندر تھے

مجبور و تہی دامن انسان کی بستی تھی

انساں کا ہی خنجر تھا، انساں کا ہی سینہ بھی

پھٹتی ہوئی آنکھوں میں خونین سا نقشہ تھا

مقتول وفائیں تھیں، رقصاں تھیں جفائیں بھی

نا کردہ گناہوں کی کتنی ہی سزائیں تھیں

اک ٹھنڈی ہوا آتی خوشیوں کی بہاروں سے

خوشیوں کے نظارے ان آنکھوں میں بسا لیتی

امید کی ڈوری بھی کچھ خام سی ہوتی ہے

ان ڈوبتی آنکھوں کی حسرت ہی رہی باقی!